سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ اللہ علیہ

  • Admin
  • Oct 23, 2021

سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ اللہ علیہ

سرزمین ہند پر اللہ تعالیٰ نے جن اولیائے کرام  کو پیدا فرمایا اُن میں سے ایک سلسلۂ چشتیہ کے عظیم پیشوا اور مشہور ولی اللہ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدین اولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی ہیں۔

نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمتہ اللہ تعالٰی جناب سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے شیخ طریقت ہیں۔

 ولادت اور نام و نسب :

آپ ؒکا اسم مبارک حضور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی مناسبت سے "محمد" رکھا گیا

اور القابات شیخ المشائخ، سلطانُ المشائخ، نِظامُ الدّین اور محبوب اِلٰہی ہیں، آپ نجیب الطرفین (یعنی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے) سیّد ہیں۔

 آپ ؒکی ولادت 27صفر المظفر 634ہجری بدھ کے روز (یُوپی ہند )کے شہر" بدایوں "میں ہوئی، والد حضرت سید احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مادرزاد (پیدائشی) ولی تھے، والدہ بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا بھی اللہ کی ولیہ تھیں۔(محبوبِ الٰہی، ص90،91، شانِ اولیاء،ص383) 

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جا ملتا ہے۔

آباواجداد :

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ" اور ان کے چچا زاد بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپ ؒکے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ تھے۔

آپ ؒکے نانا سید عربؒ کی صاحبزادی "سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا (آپ ؒکی والدہ ماجدہ)" جو زہد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں۔ عبادت گزار اور شب بیدار تھیں۔ اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں۔ ان کو اپنے وقت کی "رابعہ عصری" کہا جاتا تھا۔

آپکے دادا حضرت سید علی بخاریؒ کے صاحبزادے "سید احمدؒ (آپ ؒکے والد ماجد)" جو نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال تھے۔

آپ ؒکے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ" اور آپ ؒکے نانا "سید عرب بخاری رحمتہ اللہ علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔

دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ "حضرت سید احمد علی رحمتہ اللہ علیہ" کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا" سے کردی۔

ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔

لیکن آپؒ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔

تعلیم و تربیت :

 ناظرہ قرآن پاک و ابتدائی تعلیم اپنے  محلّے سے ہی حاصل کی، پھر "بدایوں" کے مشہورعالم دین مولانا علاءالدین اصولی  رحمۃ اللہ علیہ سے بعض علوم کی تکمیل کی اور انہوں نے ہی آپؒ کو دستار باندھی، بعداَزاں بدایوں و دہلی کے ماہرین فن علما اور اساتذہ کی درسگاہوں میں تمام مروجہ  علوم و فنون کی  تحصیل کی۔ (سیرالاولیاء،ص167، محبوبِ الٰہی،ص94،225) 

شیخ طریقت حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات :

دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے قرب میں ہی "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" کے بھائی "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ" کی رہائش گاہ تھی۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اکثر "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ" سے ملاقات فرماتے تھے۔ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ" کی زبانی "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ" علیہ کی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتہ چلتا رہتا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ " غائبانہ طور پر "شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" کے معتقد ہو گئے۔ "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ " کے دل میں یہ خواہش غلبہ پانے لگی کہ "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" سے ملاقات کی جاۓ۔ چنانچہ "حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ" اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر پاک پتن شریف روانہ ہو گئے۔

جب "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" کی خدمت میں پہنچے تو آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر پڑھا:

اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جا نہا خراب کردہ

تیری فرقت کی آگ نے قلوب کو کباب کردیا اور تیرے شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا۔

بیعت و خرقۂ خلافت :

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے۔

حضرت محبوب الٰہی نے شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ کو گاہے بگاہے ظاہری و باطنی علوم سے نوازا اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی شفقت فرمائی۔ مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کے چھ پارے تجوید و قرآت کے ساتھ پڑھے۔

مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہی کے حلقۂ درس میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی "تصنیف عوارف المعارف" کے چھ باب پڑھے۔اس کے علاوہ مرشد پاک مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ابو شکور سالمی کی "تمہید" بھی شروع سے آخر تک پڑھائی۔

ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبۂ کمال کو پہنچے تو شیخ العالم مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ  کوخلقِ خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر659 ہجری کو دہلی میں روانہ فرمایا۔

ولی کامل کی نظر کیمیا اثر کی تاثیر :

پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ سرہ العزیز اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ، فقہ و تصوف اور لغت و ادب کے حوالے دیا کرتے تھے۔ آپؒ اپنے مریدوں کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے تھے۔ آپؒ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ بعض اوقات کسی آیتِ مبارکہ کی تفسیر فرماتے اور اپنے سامعین کو قرآنی معارف سے آگاہ فرماتے۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے۔ آپؒ جیسے اسرارِ طریقت و حقیقت میں اولیاء کامل و مکمل تھے ویسے ہی علومِ فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی، ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا ءکو اللہ تعالیٰ نے بہت مقبولیت دی، عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھولے گئے، اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعہ سے فائدہ حاصل کرنے لگا۔

آپؒ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے، ہمیشہ روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا سا پانی پی لیتے، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے۔ فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے فیض باطنی سے ولی کامل ہوجاتا۔

خلفاء :

سُلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا" 700 صاحب حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔

چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں :

• حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

جانشین و خلیفہ اکبر :

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ" کو طلب کیا اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے، انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔

انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔

تصانیف :

راحت القلوب

(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)

مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،

*افضل الفوائد

(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)

* فوائدالفواد

(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ الرحمۃ)

سیر الاولیاء

اخلاق وکردار :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلب علم، عبادت و ریاضت، مجاہدہ اور لوگوں کی تربیت و اصلاح میں گزار دی، آپ ؒنہایت متقی، سخی، ایثار کرنے والے، دل جوئی کرنے والے، عفوودر گزر سے کام لینے والے، حلیم و بردبار، حسن سلوک کے پیکر اور تارک دنیا تھے۔(محبوبِ الٰہی،ص208تا250،ماخوذا) 

منقول ہے کہ "چھجو"نامی ایک شخص کو خواہ مخواہ آپ ؒسے عداوت (یعنی دشمنی) تھی،وہ بلا وجہ آپؒ کی برائیاں کرتارہتا، اس کے انتقال کے بعد آپؒ اس کے جنازے میں تشریف لے گئے، بعد دفن یوں دعا کی:

یااللہ!اس شخص نے جو کچھ بھی مجھے کہا یا میرے ساتھ کیا ہے میں نے اس کو معاف کیا، میرے سبب سے تُو اس کو عذاب نہ فرمانا۔(سیرت نظامی، ص111،ملخصاً)

 کرامت :

 آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مشہور کرامت یہ بھی ہے کہ ایک دن آپؒ کے کسی مرید نے محفل منعقدکی، جس میں ہزاروں لوگ آئے جبکہ کھانا پچاس ساٹھ افراد سے زائد کا نہ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خادم خاص سے فرمایا:

 لوگوں کے ہاتھ دھلواؤ، دس دس کے حلقے بناکر بٹھاؤ، ہر روٹی کے چار ٹکڑے کرکے دستر خوان پر رکھو، 

بِسْم اللہ پڑھ کر شروع کرو۔ ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف ہزاروں لوگ اُسی کھانے سے سیر ہوگئے بلکہ کچھ کھانا بچ بھی گیا۔

(محبوب الٰہی، ص 280، 281ملخصاً، شان اولیاء، ص387) 

چند ملفوظات :

کچھ ملےتو جمع نہ کرو، نہ ملے تو فکر نہ کرو کہ خدا ضرور دے گا۔ 

کسی کی بُرائی نہ کرو۔ (بلا ضرورت) قرض نہ لو۔

جَفا (ظلم)کے بدلے عطا کرو، ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے در پر آئیں گے۔ 

فقر و فاقہ رحمت الٰہی ہے، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اُس کی شب معراج ہے۔ 

بلاضرورت مال جمع نہیں کرنا چاہئے۔ 

راہِ خدا میں جتنا بھی خرچ کرو اسراف نہیں اورجو خدا کیلئے خرچ نہ کیا جائے اسراف ہے خواہ کتنا ہی کم ہو۔ (شان اولیاء،ص402،محبوب الٰہی،ص293) 

وصال و مزارپرانوار :

 آپ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 18ربیع الآخر 725ہجری بروز بدھ ہوا، سیدنا ابوالفتح رکن الدین شاہ رکن  عالم سُہروردی رحمۃ اللہ علیہ  نے نمازجنازہ پڑھائی، دہلی میں ہی آپؒ کا مزارشریف ہے۔

(محبوب الٰہی، ص207 ملخصاً)

استفادہ از :

Dawat e islami.net